Category Archives: Mushaira

Ao Koi Tafreeh Ka Samaan Kya Jaye – Qateel Shifai

Ao Koi Tafreeh Ka Samaan Kya Jaye
Phir Se Kisi Waiz Ko Pareshan Kya Jaye

Be Laghzish-e-Pa Mast Hon Unn Aankhon Se Pi Kar
Yun Muhtasib-e-Shehar Ko Heran Kya Jaye

Har Shai Se Muqaddas Hai Khayalat Ka Rishta
Kyun Mas’leh’ton Par Usay Qurbaan Kya Jaye

Muflis K Badan Ko Bhi Hai Chadar Ki Zaroorat
Ab Khul Ke Mazaron Pay Yeh Elaan Kya Jaye

Aghyar Ke Hathon Mein Hon Jis Mulk Ki Bagain
Mazool Har Us Malik Ka Sultan Kya Jaye

Woh Shakhs Jo Deewano Ki Izzat Nahi Karta
Us Shakhs Ka Bhi Chaak Geraibaan Kya Jaye

Pehlay Bhi Qateel Aankhon Ne Khaye Kayi Dhokay
Ab Aur Nah Benaye Ka Nuqsaan Kya Jaye

Qateel Shifai

کچھ دل پہ زخم آئے ہیں مر تو نہیں گئے – قتیل شفائی


کچھ دل پہ زخم آئے ہیں مر تو نہیں گئے – قتیل شفائی by QateelShifai

کچھ دل پہ زخم آئے ہیں مر تو نہیں گئے
ہم قاتلوں کے نام سے ڈر تو نہیں گئے

آئی ہے کیوں چمن میں خزاں باز پر س کو
پھول اپنی خوشبوؤں سے مکر تو نہیں گئے

نکلے تھے صبح گھر سےجو اپنی تلاش میں
پھر لوٹ کر وہ شام کو گھر تو نہیں گئے

رسوائیوں میں اور اضافہ یہ کیوں ہوا
ہم اس گلی میں بارِ دگر تو نہیں گئے

قاتل کو زعم ہے نہیں باقی کوئی ثبوت
دریا ہمارے خون کے اتر تو نہیں گئے

اعزاز پانے والے ذرا یہ بھی سوچتے
دستار کے عوض کہیں سر تو نہیں گئے

تو لے رہا ہے جھینپ کے جن دوستوں کا نام
تجھ سے دغا قتیل وہ کر تو نہیں گئے

جس کی جھنکار میں دل کا آرام تھا – قتیلؔ شفائی


‫جس کی جھنکار میں دل کا آرام تھا وہ تیرا نام… by QateelShifai

جس کی جھنکار میں دل کا آرام تھا وہ تیرا نام تھا
میرے ہونٹوں پہ رقصاں جو اک نام تھا وہ تیرا نام تھا

مجھ سے منسوب تھیں داستانیں کئی ایک سے ایک نئی
خوبصورت مگر جو اک الزام تھا وہ تیرا نام تھا

غمِ نے تاریکیوں میں اُچھالا مجھے مار ڈالا مجھے
اک نئی چاندنی کا جو پیغام تھا وہ تیرا نام تھا

تیرے ہی دم سے ہے یہ قتیل آج بھی شاعری کاولی
اس کی غزلوں میں کل بھی جو الہام تھا وہ تیرا نام تھا

کچھ اشعار


کچھ اشعار – قتیل شفائی by QateelShifai

ساری بستی میں یہ جادو نظر آئے مجھ کو

جو دریچہ بھی کھلے تو نظر آئے مجھ کو

صدیوں کا رت جگا میری راتوں میں آ گیا

میں اک حسین شخص کی باتوں میں آ گیا

جب تصور میرا چپکے سے تجھے چھو آئے

دیر تک اپنے بدن سے تیری خوشبو آئے

گستاخ ہواؤں کی شکایت نہ کیا کر

اُڑ جائے دوپٹہ تو دھنک اوڑھ لیا کر

تم پوچھو اور میں نہ بتاوں ایسے تو حالات نہیں

ایک ذرا سا دل ٹوٹا ہے اور تو کوئی بات نہیں

رات کے سناٹے میں ہم نے کیا کیا دھوکے کھائے ہیں

اپنا ہی جب دل دھڑکا تو ہم سمجھے وہ آئے ہیں